ایسے بلدیاتی انتخابات کا کیا فائدہ ؟
بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کو ایک سال بیت چکا ، لیکن کسی بلدیاتی دفتر کا دروازہ نہیں کھلا ۔تالے لگے ہوئے ہیں ۔یہ اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے بعد کسی کو ان تالوں کے حوالے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔پورے ملک میں بلدیاتی نظام سیاسی جماعتوں کی بے رخی کا شکار ہے ۔دوسرے صوبوں میں ابھی انتخابات کا مرحلہ بھی طے نہیں کیا جا سکا ۔عدلیہ کے بس میں جو کچھ تھا ، وہ کر چکی ۔لیکن صوبائی حکومتیں جیت گئیں ۔انتخابات نہ ہونے تھے ، نہ ہو سکے ۔بلوچستان کی حکومت نے ہمت کی اور انتخابات کرا دیئے ، جو ادھورے ثابت ہوئے ۔بلدیاتی نظام کا راستہ دوسرے طریقے سے روک دیا گیا ۔دلچسپ امر یہ ہے کہ کسی کو مورد الزام بھی نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔تم قتل کو ہو کہ کرامات کرو ہو ، والی کیفیت ہے ۔جس ملک میں سیاست داں خود بلدیاتی اداروں کے مخالف ہوں ،انہوں نے کبھی بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے ۔یہ تاریخی ریکارڈ صرف پاکستان کے سیاست دانوں نے قائم کیا ہے ۔ حالانکہ آئین میں یہ پابندی عائد کی گئی ہے ۔ جو صرف دکھانے کے کام آتی ہے ۔یہ سوال نیا نہیں کہ ہمارے سیاست دان بلدیاتی نظام کے مخالف کیوں ہیں ؟لیکن اس کا جواب ابھی تک سامنے نہیں آیا ۔یہ بحث ابھی سنجیدگی سے شروع ہی نہیں ہوئی ۔
عام آدمی کی رائے یہ ہے کہ بلدیاتی اداروں کے قیام سے اراکین اسمبلی کی چوہدراہٹ کو دھچکا لگتا ہے ۔عام آدمی گلی کی نالی پختہ کرانے کے لئے ان کا محتاج نہیں رہتا ۔ اس کے مسائل مقامی سطح پر حل ہونا شروع ہو جاتے ہیں ۔یہ بات اراکین اسمبلی کو پسند نہیں۔وہ عام آدمی کو دست بستہ اپنے دروازے کے سامنے کھڑا دیکھنا چاہتے ہیں ۔تاکہ ان کی انا کو قرار ملے ۔دوسری وجہ یہ سمجھی جاتی ہے کہ فنڈز کی خورد برد ان کے ہاتھ سے نکل جانے کا اندیشہ لاحق ہوتا ہے ۔سونے کی چڑیا اپنے ہاتھ سے کوئی نکلنے نہیں دے گا ۔فنڈز سے سب کو پیار ہے ۔بلدیاتی ادارے کام کرنا شروع کردیں تو یہ فنڈز علاقائی بلدیاتی نمائندوں کے ہاتھ سے یا ان کی نگرانی میں خرچ ہوں گے ۔اس طرح چوہدراہٹ کے ساتھ مالی منفعت سے بھی ہاتھ دھونا پڑتے ہیں ۔سابق حکومت اپنے پانچ سال اسی ٹال مٹول میں نکال گئی ، موجودہ حکومت بھی ایک سال دو مہینے نکالنے میں کامیاب رہی ہے ۔توقع کی جانی چاہیے کہ باقی مدت بھی اسی ٹال مٹول کی نذر ہو جائے گی ، بشرطیکہ کوئی انہونی نہ ہو گئی ۔
یہ محض بہانہ ہے کہ عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے ۔اس لئے کہ فریقین اگر چاہیں تو مقدمہ کی سماعت تیزی سے ہو سکتی ہے ۔اس لئے کہ موجودہ عدالتی طریقہ کار کے مطابق تاریخ سماعت کا تعین دونوں طرف کے وکلاءکی باہمی رضامندی سے طے کیا جاتا ہے ۔اور ججز کی نوٹ شیٹ پر یہ لکھا جاتا ہے فریقین کی مشاورت سے سماعت آئند تاریخ تک ملتوی کر دی گئی ہے۔یہ جملہ ساری حقیقت کو بے نقاب کرنے کے لئے کافی ہے ۔اگر ایک فریق حکومت ہو تو تاخیری حربوں میں مزیدآسانی ہو جاتی ہے ۔سرکاری وکیل کے ٹھاٹ باٹ الگ ہوتے ہیں ۔اور کوئی بہانہ نہ ہوتو یہ بہانہ ہی کافی ہے کہ میں حکومت سے پوچھ کر بتاﺅں گا ۔
حکومت اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرے ۔عدالت میں سرکاری وکیل کو اس امر کا پابند بنائے کہ وہ جلد فیصلہ کے حصول میں عدلیہ سے تعاون کرے۔بلدیاتی اداروں کو فنکشنل بنایا جائے تاکہ عام آدمی کو مقامی نوعیت کے مسائل سے نجات مل سکے ۔
No comments:
Post a Comment