Sunday 24 August 2014

پارلیمنٹ سیاسی بحران کا حل تلاش کرے

ملک ایک سیاسی بحران کا شکار ہے ۔17جون کو ماڈل ٹاﺅن میں پولیس آپریشن کے نتیجے میں 14پاکستانی شہریوں کی ہلاکت اور 90 افراد کے زخمی ہونے کے بعد نئے سیاسی حالات نے جنم لیا ۔دوسری جانب ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ بڑھ کر بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔ دونوں معاملات نے ملک ، جمہوریت اور آئین کو آزمائش میں ڈال دیا ہے ۔اس کے ساتھ ہی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہونا شروع ہو گئے ہیں ۔غیر ملکی سربراہان اپنے طے شدہ دورے منسوخ کر رہے ہیں ۔وزیر مملکت اور چیئرمین نجکاری کمیشن محمد زبیر نے کہا ہے کہ اسلام آباد میںدھرنوں اور احتجاج کے نتیجے میںاس بات کا خدشہ ہے کہ سرمایہ کاری کے اہداف پورے نہ ہو سکیں ۔انہوں نے کہا کہ غیرملکی اور ملکی سرمایہ کار بنگلہ دیش کو ترجیح دینے لگے ہیں ۔
یہ صورت حال ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے ۔عوام افسوس اور کھ سے اس بحران کو شدید سے شدید تر ہوتا دیکھ رہے ہیں ۔زیادہ افسوسناک پارلیمنٹ کا رویہ ہے جو اس بحران کا حل تلاش کرنے کی بجائے صرف قرار دادیں پاس کرنے میں مصروف ہے ۔اراکین پارلیمنٹ ملک اور قوم کو اس بحران سے نکلنے کا کوئی راستہ فراہم کرنے کی بجائے پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کی قیادت پر الزامات لگانے اورانہیں مطعون کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر رہے ۔سوال یہ ہے کہ پارلیمنٹ اگر ملک کو سیاسی بحران سے نبرد آزما ہونے کاکوئی فارمولا نہیں دے سکتی ،تو اس کی افادیت کے بارے میں سوال پیدا ہونا فطری امر ہوگا ۔ پہلا سوال یہ ہے کہ چار حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کو پارلیمنٹ نے سنجیدگی سے کیوں نہیں دیکھا ؟حکومت نے اگر ٹال مٹول کی پالیسی اختیار کی تو اپوزیشن نے ذمہ داری سے اس معاملے کو پارلیمنٹ میں کیوں نہیں اٹھایا ؟اگر موجودہ قوانین میں تبدیلی کی ضرورت تھی تو یہ تبدیلی بروقت کیوں نہیں کی گئی ؟بات بگڑنے سے پہلے اس کا حل کیوں تلاش نہیںکیا گیا ؟دھرنوں کی نوبت کیوں آنے دی گئی ؟جماعت اسلامی اور پی پی پی نے اپنی حیثیت میں جو کچھ کیا اس کا کریڈٹ پارلیمنٹ کو نہیں دیا جاسکتا ۔ اس بحران کو حل کرنے کے حوالے سے پارلیمنٹ کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے ۔ یہی اس ملک کا سب سے بڑا بحران ہے ۔
عام آدمی جمہوریت اور آئین کے ساتھ کھڑا ہے ،لیکن حکومت اور پارلیمنٹ کا رویہ اس کے برعکس ہے ۔حکمراں جماعت کے کارکن بار باردھرنے میں شریک دونوں جماعتوں کی قیادت کی رہائش گاہوں پر پتھراﺅ کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔شاہ محمود قریشی اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہوں کے حوالے سے یہ شکایت سامنے آئی ہے ۔اس قسم کا رویہ حکومت کو نئی مشکلات سے دوچار کر رہا ہے ۔
دھرنا دینے والے تمام مشکلات کے باوجود ، جن میں موسم کی شدت بھی شامل ہے ، اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ڈٹے ہوئے ہیں ۔ایسا ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ دیکھنے کو ملا ہے ۔عورتیں ،بچے ، لڑکیاں ، اور بوڑھے اس دھرنے میں ایک ہفتہ گزرنے کے بعد بھی پر عزم نظر آتے ہیں ۔اسے حکومت سنجیدگی سے نہیں لے گی تو صورت حال میں تناﺅ پیدا ہوگا ۔پر امن ہجوم مشتعل ہوسکتا ہے ۔مشتعل ہجوم پر انتظامی قوت سے قابوپانا مشکل تر ہو جائے گا ۔حکومت کسی تصادم کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔پارلیمنٹ آگے بڑھے ، سیاسی بصیرت کا ثبوت دے ، اس بحران کا دانشمندانہ حل تلاش کرے ۔آنکھیں بند کر کے انہونی کا انتظار نہ کیا جائے ۔قرار دادوں پر تکیہ نہ کیا جائے ، قانون سازی کی جائے جو وقت کی ضرورت ہے ۔ورنہ کچھ بھی ہو سکتا ہے ،کھیل ختم ہونے کا اندیشہ سب کو لا حق ہے،اس سے بچنے کی تدبیرکی جائے ۔ 

Tuesday 12 August 2014

ویژن 2025 ،غیر یقینی سیاسی حالات میں

آج مسلم لیگ ن کی حکومت نے ملک کے مستقبل کے حوالے سے معاشی منصوبے کا اعلان کیا ہے جس میں یہ طے کیا گیا کہ ملک کی برآمدات کو 150 ارب ڈالر تک پہنچایا جائے گا ۔ حکومت کا کہنا ہے جب تک قوم اپنے اہداف متعین نہیں کرتی ، اس وقت تک ترقی کا سفر شروع نہیں ہوتا ۔یہ ہدف حاصل کرنے کے لئے حکومت نے تمام ریاستی اداروں اور قوم کونعرہ بھی دیا ہے کہ ان اہداف کا حصول تبھی ممکن ہے جب سب ایک نئے جوش اور ولولے کے ساتھ ملک کی ترقی کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں ۔
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے بتایا کہ پاکستان کی موجودہ شناخت دہشت گردی بن چکی ہے ،اس شناخت کو تبدیل کرنا ہے ۔پاکستان کی مصنوعات کو اپنے برانڈ کے طور پر پیش کیا جائے گا ۔یہ برانڈڈ مصنوعات اپنے معیار اور افادی کے اعتبار سے ایک جانب ملک کے لئے قیمتی زر مبادلہ میں اضافہ کا سبب بنیں گی اور دوسری جانب ملک کے لئے نیک نامی کا ذریعہ بھی ۔انہوںنے کہا کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے ، جب کوئی طالب علم فیصلہ کر لیتا ہے کہ اس نے عالمی ریکارڈ قائم کرنا ہے تو دنیا اس کی شاندار کارکردگی پر حیران و ششدر رہ جاتی ہے ۔پاکستانیوں کی بڑی تعداد یورپ ، امریکا ، برطانیہ اور عرب ریاستوں میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرکے ایوارڈ حاصل کر رہ ہیں ۔حکومت ان سے درخواست کرے گی کہ وہ ملک کو اپنی خدمات پیش کریں ، حکومت ان کی خدمات سے استفادہ کرے گی ۔
اس کے علاوہ انہوں یہ دعویٰ بھی کیا کہ وہ ملک کو قرضوں کی بنیاد پر ترقی دینے کی بجائے چاہتی ہے کہ پاکستان اپنے وسائل کے بل پر ترقی کرے ۔پاکستان کے پاس وسائل موجود ہیں ۔ کمی وسائل کی نہیں ہے ،کمی جذبے کی ہے ۔بجلی کے بحران پر تین ، چار سال میں قابو پا لیا جائے گا ۔ چین کی مدد سے لگائے جانے والے منصوبوں کی تکمیل پر 10 ہزار میگا واٹ بجلی دستیاب ہوگی ۔زراعت کے شعبے میں پیداواری استعداد بڑھانے کی بڑی گنجائش ہے ۔آج پاکستان اس شعبے سے صرف 35 فی صد پیداوار حاصل کر رہا ہے ۔ اگر اسے دوگنا کر دیا جائے تو کثیر زر مبادلہ یہ شعبہ فراہم کر سکتا ہے ۔
ان کی تقریر اور دعوے اپنی جگہ حقیقت پر مبنی ہیں ۔لیکن اس میں متعدد بار لفظ ۔۔اگر۔۔ استعمال ہوا ہے ۔اتنے اگر کی تکمیل اور 2025 آنے میں طویل فاصلہ ہے ۔لوگ تو چائے کا کپ ٹیبل پر آنے کے بعد بھی یقین نہیں کرتے کہ وہ چائے پی سکیں گے ۔ان کی زبان پر یہ کہاوت ہوتی ہے :کپ اور ہونٹوں کے درمیان بھی فاصلہ ہے ۔
وہ کپ اور ہونٹوں کے فاصلے کی موجودگی کو بھی اہمیت دیتے ہیں ۔جبکہ ویژن 2025 کو آنے کے لئے 11سال کا طویل وقفہ عبور کرنا ہے ۔یہ بت مایوسی پھیلانے کے لئے نہیں کی جارہی ۔ایسے متعدد ویژن تاریخ کے کوڑے دان پر پڑے ملیں گے ۔ان ویژن پیش کرنے والوں نے بھی اسی قسم کے جذباتی نعرے وضع کئے تھے ۔وہ بھی پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کا دعویٰ کیا کرتے تھے ۔بلکہ خود میاں نواز شریف بھی یہ دعویٰ کرتے سنے گئے ہیں ۔
سچ یہ ہے کہ پاکستان میں بجلی ، گیس اور پانی شدید قلت ہے۔ صنعت اور زراعت دونوں مشکلات کا شکار ہیں ۔ڈیم بنانے کی بجائے سڑکیں بنائی جاتی رہی ہیں ، اور آج بھی یہی کام زورو شور سے کیا جا رہا ہے ۔بھاشا ڈیم کی تعمیرالتواءمیں ڈال کر داسو ڈیم کے کھلونے سے دل بہلایا جا رہا ہے ۔نجکاری کا عمل ایک ہی پارٹی کو چار منصوبے فروخت کرنے کی بناءپر مشکوک دکھائی دیتا ہے ۔14 گست کو اپوزیشن اسلام آباد پر یلغار کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ۔ویژن کا کیا بھروسہ؟ 

Sunday 10 August 2014

عمران خان بالغ نظری کا مظاہرہ کریں 

وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف نے قومی سلامتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ملک میں پیدا سیاسی کشیدگی کو ختم کرنے کے لئے کہا ہے کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کے ذریعے ہمیں بتایا گیا ہے کہ عمران خان چاہتے ہیں کہ 10انتخابی حلقوں میںووٹوں کی دوبارہ گنتی کرا دی جائے تو وہ 14 اگست کا آزادی مارچ ختم کر دیں گے ۔انہوں نے اس کے جواب میں کہا کہ ہم اس پر بات کرنے کے لئے تیار ہیں اور اگر کسی وجہ سے عمران خان ان سے ملاقات کے لئے نہیں آسکتے تو وہ خود ان سے ملاقات کرنے جہاں چاہیں چلے جائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ ملک اور قوم کے مفاد میں انا کا مسئلہ نہیں ہوتا ۔ سراج الحق اس وقت کانفرنس میں موجود تھے ، اس لئے وزیر اعظم کی جانب سے کئے جانے والا دعویٰ کو درست سمجھا جانا چاہیئے ۔اور اسے حکومتی رویہ میں لچک کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے ۔
اب گیند عمران خان کی کورٹ میں ہے ۔اول تو انہیں قومی سلامتی کانفرنس میں شرکت سے انکار نہیں کرنا چاہیئے تھا ۔سیاست میں مل بیٹھنے کے مواقع آئیں تو ان سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے ۔یہ مقام اور موقع عمران خان کے لئے ایک باوقار تقریب تھی جہاں دیگر سیاسی قائدین بھی موجود تھے اور فوجی قیادت بھی براہ راست گفت و شنید کے لئے دستیاب تھی ۔سب مل کر شکایات کے حوالے سے فریقین کا موقف سنتے اور کوئی مناسب حل بھی نکالا جاسکتا تھا ۔شرکت نہ کرنے کی وجہ شائد یہ رہی ہو کہ اس کانفرنس میں صرف شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن کے سلسلے میں بریفنگ متوقع تھی ،جس سے خیبر پختونخوا کی استطاعت سے وہ پہلے ہی باخبر ہیں ۔تاہم حقیقت یہی ہے کہ ایک اچھا موقع انہوں نے گنوا دیا ۔یہ بھی ممکن ہے کہ وزیر اعظم نے عمران خان کی عدم موجودگی سے سیاسی فائدہ اٹھایا ہو ، اور ایسا کرنا ان کی سیاسی بصیرت کا تقاضہ بھی تھا ۔
عمران خان کی توقع کے برعکس وزیر اعظم نے 14 اگست کے آزادی مارچ پر بڑے سلیقے سے بات کی ۔ان کا یہ کہنا اپنی جگہ وزن رکھتا ہے کہ اس قسم کے لانگ مارچ یا احتجاجی مظاہروں کی ضرورت الیکشن سے سال ڈیڑھ سال پہلے ہوا کرتی ہے ۔جبکہ ابھی اس میں کافی وقت باقی ہے ۔ اب عمران خان کو چاہیئے کہ انا کے خول سے باہر نکلیں اور وزیراعظم محمد نواز شریف کو ملاقات کا وقت دیں ۔اسلام آباد کے ڈی چوک پر جو کچھ کہنا ہے ،وہ سب کچھ اس ملاقات میں کہہ دیں ۔زیادہ مناسب ہوگا کہ اس ملاقات میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق بھی موجود ہوں ، کیونکہ یہ ملاقات ان کی سنجیدہ اور مسلسل کوششوں کا نتیجہ ہے ۔ورنہ دوسری سیاسی قیادت وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہی ہیں ۔
تاریخ معاملات کو باوقار انداز میں حل کرنے کا موقع دے تو اسے ضائع نہ کیا جائے ۔اس سے استفادہ کیا جائے ۔پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کا اجلاس بلائیں ،اپنے ساتھیوں سے مشاورت کریں ، اور وزیر اعظم کی پیشکش کا مثبت جواب دیں ۔سیاسی تدبر کا مظاہرہ کیا جائے ۔جو کام سڑکوں پر پولیس اور دوسرے اداروں سے ڈنڈے ، گولیاں اور آنسو گیس کے گولے کھائے بغیر ہو سکتا ہے ، اسے جان بوجھ کر بدمزگی سے دوچار کرنا اچھے سیاستدان کا اقدام نہیں کہا جا سکتا ۔اس پیشکش کا مثبت جواب عمران خان اور پی ٹی آئی کے مستقبل پر بہتر اثرات مرتب کرنے کا باعث ہوگا ۔ابھی انہیں اور ان کی پارٹی کو طویل مسافت طے کرنا ہے ۔لمبی دوڑ میں شروع سے ہی تیز دوڑنے والے آخری چکر میں اپنا اسٹیمنا برقرار نہیں رکھ سکتے ۔یاد رکھیں اچھے بیٹسمین کی حیثیت سے وہ ہر بال نہ کھیلیں ، لوز بال کا انتظار کریں۔ملاقات سے انکار درست نہیں ۔

Thursday 7 August 2014

آزادی مارچ اور حکومت کا مستقبل

وزےراعظم نواز شرےف نے کہا ہے کہ ان کی حکومت کو کسی لانگ مارچ سے کوئی خطرہ نہےںہے۔اس کے ساتھ ہی اپوزےشن جماعتوں سے اپےل کی ہے کہ اس کشتی کو نہ ڈبو ئےں جس پر سب سوار ہےں۔ان کے بےان مےں احتجاجی مارچوں کے دباو ¿ اور حکومت کی خوفزدگی نما ےاں ہے۔دوسری جانب تحر ےک انصاف کے سر براہ عمران خان نے اعلان کےا ہے کہ وہ بادشاہت ختم کر نے اسلام آباد جا رہے ہےںاور نئے پاکستان کے بننے تک اپنادھرنا جا ری رکھےں گے۔وفا قی وزےر اطلاعات پروےز رشےد کا کہنا ہے کہ اگر14اگست کو آزادی مارچ کے موقع پر دہشت گردی ہوئی تو زمہ دار تحر ےک انصاف ہوگی۔ جبکہ تحر ےک انصاف کے رہنما شاہ محمود قر ےشی کا کہنا ہے کہ کسی نا خو شگوار واقعہ کی صورت مےں زمہ داری حکومت پر عا ئد ہوگی،عوامی مسلم لےگ کے واحد رکن قومی اسمبلی شےخ رشےد کا دعو یٰ ہے کہ آزادی مارچ کی نوبت ہی نہےں آ ئے گی اور14اگست سے قبل ہی تبد ےلی ہو جا ئے گی۔پروےز مشر ف پر آئےن شکنی کے مقد مہ کی سماعت پےر کو ہو رہی ہے۔بعض حلقوں کا خےال ہے کہ اگر حکومت سےاسی درجہ حرارت مےں فوری طور پر کمی لانا چا ہتی ہے توا سے14اگست سے پہلے کم از کم پر وےز مشرف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دےنی ہو گی۔پےر کوان کے مقدمہ کی سماعت کے دوران ےا اس کے بعد صورتحال مےں تبد ےلی کا اشارہ مل سکتا ہے۔حکومت نے وفاقی دارالحکومت تےن ماہ کے لئے آ رٹےکل245کے تحت فوج کے حوالے کر نے کا فےصلہ کر رکھا ہے۔ لےکن اس فےصلے پر عملدرآمد اور حکومت کے مفاد مےں نتائج برآمد کر نے کے لئے پاک فوج کا تعاون اہمےت کا حامل ہے۔پاکستان کی تارےخ مےں سول ملٹری تعلقات مےں مسلسل موجود عدم توازن کے پےش نظر کہا جا سکتا ہے کہ حکومت کو فوج کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنا نے پر توجہ دےنی ہوگی اوراس مقصد کے لئے پر وےز مشرف کے مقد مے اور جےو‘ آئی اےس آئی تنازعہ مےںحکومت کی پوزےشن کی تبد ےلی اولےن شر ط ہے۔ دےکھنا ےہ ہے کہ نواز شر ےف صورتحال کی کشےد گی کم کر نے اور سےاسی قا ئدےن سے نمٹنے کے لئے فوج کو ساتھ ملانے مےں کامےاب ہو تے ہےں ےا نہےں۔ اگر شر ےف برادران نے ماضی کی طرح ہٹ دھر می کا روےہ بر قرار رکھا اور فوج کو بھی سو ےلےن اداروں کی طرح استعمال کر نے کی روش تبد ےل نہ کی تو245کے نفاد کے نتا ئج اس طر ح نکلنے کا خطرہ موجود رہے گا جس طرح ماضی مےں سامنے آتا رہا ہے۔ جمہوری عمل کا دفاع کر نے کے لئے جمہوری قا ئدےن کو با لغ نظری اور سنجےدگی کا مظا ہر ہ کر نا ہوگا۔

Monday 4 August 2014

حکومت شائد آنے والے دنوں کو آسان لے رہی ہے 

حکومت نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے خطاب اور یوم شہداءکے اعلان کے چند سیکنڈ کے اندر جس رد عمل کا اظہار کیا ہے اسے دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ حکومت آنے والے دنوں کو آسان سمجھ رہی ہے اور اسے یقین ہے کہ یہ احتجاج اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔عین ممکن ہے کہ اس کومشیروں کی جانب سے ڈٹے رہنے کا مشورہ دیا گیا ہو ، یہ الفاظ پرویز رشید اپنی ذاتی حیثیت میں استعمال نہیں کر سکتے تھے ۔انہوں نے جو کچھ کہا ہے وہ حکومت کی سوچ کی ترجمانی کے سوا کچھ نہیں ۔تاہم عام آدمی کوبیان سے مایوسی ہوئی ۔عام آدمی کا خیال تھا کہ تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچنے سے پہلے وزیر اعظم محمد نواز شریف نے مکمل ہوم ورک کیا ہوگا ۔دو مرتبہ حکومت کی قبل از وقت برطرفی سے کچھ نہ کچھ سبق ضرور سیکھا ہو گا ۔لیکن سیاسی معاملات میں مسلسل ٹال مٹول سے کام لیا گیا اور تاخیری حربے اختیار کئے گئے انہیں دیکھنے کے بعد عام آدمی یہی نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ حکومت کی سوئی 1998پر اٹکی ہوئی ہے ۔
انتخابات کے فوری بعد ملک کی تمام پارٹیوں نے انتخابات کے حوالے سے عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا ۔دھاندلی کی شکایات ہر پارٹی نے کیں ۔اس میں خود مسلم لیگ ن بھی شامل تھی ۔پاکستان تحریک انصاف نے کراچی میں جن حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کرائی وہاں حیران کن انکشافات ہوئے ۔ایک وسیم نامی شخص کے بارے میں کہا گیا کہ اس نے 70ووٹ ڈالے ہیں ۔ سینکڑوں ووٹرز ایسے نکلے جو اس حلقے میں نہیں رہتے تھے ۔دھاندلی کے اتنے بڑے شواہد سامنے آنے کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے ذمہ داران کے خلاف سرے سے کوئی کارروائی نہیں کی ۔کسی عہدیدار کو رسمی شوکاز نوٹس تک جاری نہیں کیا گیا ۔اس خاموشی کے صرف ایک ہی معنی ہو سکتا ہے کہ حکومت دھاندلی کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے ۔اسی لئے دھاندلی کے شواہد سامنے آجانے کے بعد کسی کے خلاف قانون حرکت میں نہیں آیا ۔اھر پی ٹی آئی نے لاہور کے چار انتخابی حلقوں میںووٹوں کی دوبارہ گنتی پر اصرار کیا تو حکومت نے ایوان کے معزز فلور پر نہ صرف مذکورہ چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کی یقین دہانی کرائی بلکہ یہ بھی کہا کہ 40حلقوں میں تحقیقات کے لئے تیار ہے ۔لیکن یہ یہ محض لفاظی تھی ،حکمت اس اقداسم کے لئےذہنی طور پر کبھی تیار نہیں تھی ۔اسکا نتیجہ یہی نکل سکتا تھا کہ حکومت وقت گذرنے کے عاتھ دفاعی پوزیشن پر چلی جائے ۔اس دوران لاہور میں 14افراد کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت اور 100کے لگ بھگ زخمی ہونے سے سیاسی ماحول میں زبردست کشیدگی پیدا ہو گئی ۔
اب دونوں معاملات یکجا ہو کر حکومت کے لئے ایک بڑا چیلنج بن چکے ہیں ۔حکومت کی جانب سے تا حال ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا جسے بنیاد بنا کر عام آدمی یہ سوچے کہ حکومت بیچ کا کوئی راستہ نکالنے میں کامیاب ہو جائے گی ۔وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کے تازہ بیان کے بعد یہی نظر آ رہا ہے کہ حکومت نے سیاسی مسائل کو انتظامی طریقے سے حل کرنے کا تہیہ کیا ہوا ہے ۔ حالانکہ اسلام آباد میں پولیس کی پسپائی کے بعد حکومت عوامی ناراضگی دور کرنے کے لئے بہتر حکمت عملی اختیار کر سکتی تھی ۔اب بھی حکومت کے پاس ایک ہفتہ ہے ،سوچ سمجھ کر مناسب اقدامات کئے جائیں جن میں چارحلقوں کی دوبارہ گنتی اور واقعہ لاہور کی ایف آئی آر میں عملی پیش رفت شامل ہے ۔ سیاسی معاملات کا سیاسی حل تلاش کرنا چاہیے ، دوسرے راستے بند گلی کی جانب جاتے ہیں ۔