Tuesday 12 August 2014

ویژن 2025 ،غیر یقینی سیاسی حالات میں

آج مسلم لیگ ن کی حکومت نے ملک کے مستقبل کے حوالے سے معاشی منصوبے کا اعلان کیا ہے جس میں یہ طے کیا گیا کہ ملک کی برآمدات کو 150 ارب ڈالر تک پہنچایا جائے گا ۔ حکومت کا کہنا ہے جب تک قوم اپنے اہداف متعین نہیں کرتی ، اس وقت تک ترقی کا سفر شروع نہیں ہوتا ۔یہ ہدف حاصل کرنے کے لئے حکومت نے تمام ریاستی اداروں اور قوم کونعرہ بھی دیا ہے کہ ان اہداف کا حصول تبھی ممکن ہے جب سب ایک نئے جوش اور ولولے کے ساتھ ملک کی ترقی کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں ۔
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے بتایا کہ پاکستان کی موجودہ شناخت دہشت گردی بن چکی ہے ،اس شناخت کو تبدیل کرنا ہے ۔پاکستان کی مصنوعات کو اپنے برانڈ کے طور پر پیش کیا جائے گا ۔یہ برانڈڈ مصنوعات اپنے معیار اور افادی کے اعتبار سے ایک جانب ملک کے لئے قیمتی زر مبادلہ میں اضافہ کا سبب بنیں گی اور دوسری جانب ملک کے لئے نیک نامی کا ذریعہ بھی ۔انہوںنے کہا کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے ، جب کوئی طالب علم فیصلہ کر لیتا ہے کہ اس نے عالمی ریکارڈ قائم کرنا ہے تو دنیا اس کی شاندار کارکردگی پر حیران و ششدر رہ جاتی ہے ۔پاکستانیوں کی بڑی تعداد یورپ ، امریکا ، برطانیہ اور عرب ریاستوں میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرکے ایوارڈ حاصل کر رہ ہیں ۔حکومت ان سے درخواست کرے گی کہ وہ ملک کو اپنی خدمات پیش کریں ، حکومت ان کی خدمات سے استفادہ کرے گی ۔
اس کے علاوہ انہوں یہ دعویٰ بھی کیا کہ وہ ملک کو قرضوں کی بنیاد پر ترقی دینے کی بجائے چاہتی ہے کہ پاکستان اپنے وسائل کے بل پر ترقی کرے ۔پاکستان کے پاس وسائل موجود ہیں ۔ کمی وسائل کی نہیں ہے ،کمی جذبے کی ہے ۔بجلی کے بحران پر تین ، چار سال میں قابو پا لیا جائے گا ۔ چین کی مدد سے لگائے جانے والے منصوبوں کی تکمیل پر 10 ہزار میگا واٹ بجلی دستیاب ہوگی ۔زراعت کے شعبے میں پیداواری استعداد بڑھانے کی بڑی گنجائش ہے ۔آج پاکستان اس شعبے سے صرف 35 فی صد پیداوار حاصل کر رہا ہے ۔ اگر اسے دوگنا کر دیا جائے تو کثیر زر مبادلہ یہ شعبہ فراہم کر سکتا ہے ۔
ان کی تقریر اور دعوے اپنی جگہ حقیقت پر مبنی ہیں ۔لیکن اس میں متعدد بار لفظ ۔۔اگر۔۔ استعمال ہوا ہے ۔اتنے اگر کی تکمیل اور 2025 آنے میں طویل فاصلہ ہے ۔لوگ تو چائے کا کپ ٹیبل پر آنے کے بعد بھی یقین نہیں کرتے کہ وہ چائے پی سکیں گے ۔ان کی زبان پر یہ کہاوت ہوتی ہے :کپ اور ہونٹوں کے درمیان بھی فاصلہ ہے ۔
وہ کپ اور ہونٹوں کے فاصلے کی موجودگی کو بھی اہمیت دیتے ہیں ۔جبکہ ویژن 2025 کو آنے کے لئے 11سال کا طویل وقفہ عبور کرنا ہے ۔یہ بت مایوسی پھیلانے کے لئے نہیں کی جارہی ۔ایسے متعدد ویژن تاریخ کے کوڑے دان پر پڑے ملیں گے ۔ان ویژن پیش کرنے والوں نے بھی اسی قسم کے جذباتی نعرے وضع کئے تھے ۔وہ بھی پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کا دعویٰ کیا کرتے تھے ۔بلکہ خود میاں نواز شریف بھی یہ دعویٰ کرتے سنے گئے ہیں ۔
سچ یہ ہے کہ پاکستان میں بجلی ، گیس اور پانی شدید قلت ہے۔ صنعت اور زراعت دونوں مشکلات کا شکار ہیں ۔ڈیم بنانے کی بجائے سڑکیں بنائی جاتی رہی ہیں ، اور آج بھی یہی کام زورو شور سے کیا جا رہا ہے ۔بھاشا ڈیم کی تعمیرالتواءمیں ڈال کر داسو ڈیم کے کھلونے سے دل بہلایا جا رہا ہے ۔نجکاری کا عمل ایک ہی پارٹی کو چار منصوبے فروخت کرنے کی بناءپر مشکوک دکھائی دیتا ہے ۔14 گست کو اپوزیشن اسلام آباد پر یلغار کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ۔ویژن کا کیا بھروسہ؟ 

No comments:

Post a Comment