عمران خان بالغ نظری کا مظاہرہ کریں
وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف نے قومی سلامتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ملک میں پیدا سیاسی کشیدگی کو ختم کرنے کے لئے کہا ہے کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کے ذریعے ہمیں بتایا گیا ہے کہ عمران خان چاہتے ہیں کہ 10انتخابی حلقوں میںووٹوں کی دوبارہ گنتی کرا دی جائے تو وہ 14 اگست کا آزادی مارچ ختم کر دیں گے ۔انہوں نے اس کے جواب میں کہا کہ ہم اس پر بات کرنے کے لئے تیار ہیں اور اگر کسی وجہ سے عمران خان ان سے ملاقات کے لئے نہیں آسکتے تو وہ خود ان سے ملاقات کرنے جہاں چاہیں چلے جائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ ملک اور قوم کے مفاد میں انا کا مسئلہ نہیں ہوتا ۔ سراج الحق اس وقت کانفرنس میں موجود تھے ، اس لئے وزیر اعظم کی جانب سے کئے جانے والا دعویٰ کو درست سمجھا جانا چاہیئے ۔اور اسے حکومتی رویہ میں لچک کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے ۔اب گیند عمران خان کی کورٹ میں ہے ۔اول تو انہیں قومی سلامتی کانفرنس میں شرکت سے انکار نہیں کرنا چاہیئے تھا ۔سیاست میں مل بیٹھنے کے مواقع آئیں تو ان سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے ۔یہ مقام اور موقع عمران خان کے لئے ایک باوقار تقریب تھی جہاں دیگر سیاسی قائدین بھی موجود تھے اور فوجی قیادت بھی براہ راست گفت و شنید کے لئے دستیاب تھی ۔سب مل کر شکایات کے حوالے سے فریقین کا موقف سنتے اور کوئی مناسب حل بھی نکالا جاسکتا تھا ۔شرکت نہ کرنے کی وجہ شائد یہ رہی ہو کہ اس کانفرنس میں صرف شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن کے سلسلے میں بریفنگ متوقع تھی ،جس سے خیبر پختونخوا کی استطاعت سے وہ پہلے ہی باخبر ہیں ۔تاہم حقیقت یہی ہے کہ ایک اچھا موقع انہوں نے گنوا دیا ۔یہ بھی ممکن ہے کہ وزیر اعظم نے عمران خان کی عدم موجودگی سے سیاسی فائدہ اٹھایا ہو ، اور ایسا کرنا ان کی سیاسی بصیرت کا تقاضہ بھی تھا ۔
عمران خان کی توقع کے برعکس وزیر اعظم نے 14 اگست کے آزادی مارچ پر بڑے سلیقے سے بات کی ۔ان کا یہ کہنا اپنی جگہ وزن رکھتا ہے کہ اس قسم کے لانگ مارچ یا احتجاجی مظاہروں کی ضرورت الیکشن سے سال ڈیڑھ سال پہلے ہوا کرتی ہے ۔جبکہ ابھی اس میں کافی وقت باقی ہے ۔ اب عمران خان کو چاہیئے کہ انا کے خول سے باہر نکلیں اور وزیراعظم محمد نواز شریف کو ملاقات کا وقت دیں ۔اسلام آباد کے ڈی چوک پر جو کچھ کہنا ہے ،وہ سب کچھ اس ملاقات میں کہہ دیں ۔زیادہ مناسب ہوگا کہ اس ملاقات میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق بھی موجود ہوں ، کیونکہ یہ ملاقات ان کی سنجیدہ اور مسلسل کوششوں کا نتیجہ ہے ۔ورنہ دوسری سیاسی قیادت وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہی ہیں ۔
تاریخ معاملات کو باوقار انداز میں حل کرنے کا موقع دے تو اسے ضائع نہ کیا جائے ۔اس سے استفادہ کیا جائے ۔پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کا اجلاس بلائیں ،اپنے ساتھیوں سے مشاورت کریں ، اور وزیر اعظم کی پیشکش کا مثبت جواب دیں ۔سیاسی تدبر کا مظاہرہ کیا جائے ۔جو کام سڑکوں پر پولیس اور دوسرے اداروں سے ڈنڈے ، گولیاں اور آنسو گیس کے گولے کھائے بغیر ہو سکتا ہے ، اسے جان بوجھ کر بدمزگی سے دوچار کرنا اچھے سیاستدان کا اقدام نہیں کہا جا سکتا ۔اس پیشکش کا مثبت جواب عمران خان اور پی ٹی آئی کے مستقبل پر بہتر اثرات مرتب کرنے کا باعث ہوگا ۔ابھی انہیں اور ان کی پارٹی کو طویل مسافت طے کرنا ہے ۔لمبی دوڑ میں شروع سے ہی تیز دوڑنے والے آخری چکر میں اپنا اسٹیمنا برقرار نہیں رکھ سکتے ۔یاد رکھیں اچھے بیٹسمین کی حیثیت سے وہ ہر بال نہ کھیلیں ، لوز بال کا انتظار کریں۔ملاقات سے انکار درست نہیں ۔
No comments:
Post a Comment