Saturday 14 March 2015

آرڈیننس لانے میں تاخیرہوئی یا عجلت؟

ہمارے سیاست داں اقتدار میں آنے سے پہلے کچھ ہوتے ہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد اس کے برعکس ہو جاتے ہیں ۔جو کام اقتدار میں آنے سے پہلے انہیں غیر جمہوری دکھائی دیتا ہے ، وہی کام اقتدار ملتے ہی جائز اور جمہوری نظر آنے لگتا ہے ۔سینیٹ کے انتخابات سے پہلے ہارس ٹریڈنگ کے حوالے سے جو کچھ کہا اور سنا جا رہا تھا اس سے خوف زدہ ہو کر حکومت اپوزیشن کے ساتھ مل کر 22ویں ترمیم لانے پر آمادہ ہو گئی تھی ۔وہ تو عین آخری لمحات میں پاکستان پیپلز پارٹی اور جمیعت علمائے اسلام نے ووٹ نہ دینے کا اعلان کرکے اس راستے میں ایک رکاوٹ کھڑی کر دی ۔ورنہ اس ترمیم کے دوررس نتائج ہوتے ۔انتخابی طریقہ کار میں بہتری آتی یا نئی اور ان دیکھی خرابیوں کی راہ ہموار ہوتی اس کا فیصلہ مستقبل میں سامنے آتا لیکن فوری طور پر ایک نئی الجھن پیدا ہو جاتی جسے تا حال موضوع بحث نہیں بنایا گیا ۔وہ یہ کہ پاکستان تحریک انصاف اس ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالتی ۔اس کے ساتھ ہی پینڈورا بکس کھل جاتا کہ وہ ووٹ دینے کا استحقاق کھو چکی تھی ، یا ابھی تک ان کے استعفے خلاءمیں معلق تھے ؟
تاہم الیکشن سے چند ثانئے پہلے جس ڈرامائی انداز میں صدارتی آرڈیننس لایا گیا وہ بھی اپنی جگہ کم حیران کن نہیں ۔اس آرڈیننس کا نفاذ صرف فاٹا تک محدود ہے ۔دیگر صوبوں میں جو بلا مقابلہ امیدوار قرار پائے کیا وہ رائے دہندگان کے باہمی لین دین کا نتیجہ نہیں تھے؟ لین دین صرف نوٹ ہی نہیں ہوتے ۔مفادات کے حوالے سے کی جانے والی پیشگی یقین دہانیاں کیا لین دین کی ایک شکل نہیں ہے ؟اگر نہیں ہیں تو فاٹا کے اراکین بھی اسی قسم کا ایک لین دین کرتے اور اپنے نمائندے منتخب کر لیتے ۔یہ سیاسی معاملہ ہے ۔اس کے سیاسی پہلو پر بات کی جا سکتی ہے ۔اور ہونی چاہیئے تھی ۔تاہم اس مسئلے کو عدالت لے جایا گیا ہے ۔عدالت میں تصفیہ طلب مسئلے پر رائے زنی مناسب نہیں ۔عدالتی فیصلہ آنے کے بعد ہی اس پر کچھ کہنا مناسب ہوگا ۔توقع کی جانی چاہیئے کہ اس مسئلے کے تما م پہلوﺅں پر سیر حاصل بحث کی جائے گی ۔ یہ کھوج لگایا جائے گا کہ الیکشن سے محض چند ثانئے قبل ایسی کون سی قیامت آنے والی تھی؟ جسے روکنے کے لئے آرڈیننس کے سوا دوسرا کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔
آئین کی دو شقیں بھی انتخابی عمل سے متعلق ہیں ۔ان شقوں کو 62,63کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ان کے بارے میں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے اگلے روز تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے ۔ اس فیصلے میں ان شقوں کو مبہم، نامکمل اور آپس میں تضادات پر مبنی معمہ قرار دیا ہے ۔اچھے چال چلن اور مناسب دینی معلومات جیسی اصطلاحات سے کچھ نہیں سمجھا جا سکتا کہ ریٹننگ افسر انتہائی مختصر وقت میں کیسے اندازہ لگائے کہ کون سا امیدوار ان شقوں پر پورا اترتا ہے اور کونسا نہیں اترتا ۔دعائے قنوت ہی کو بعض نے دینی معیار بنا لیا تھا ۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے آئین میں جس طرح ترامیم کی جاتی رہی ہیں وہ اپنی جگہ خود ایک سوالیہ نشان ہےں ۔آئین کو موم کا مجسمہ سمجھ کر جس نے جیسا چاہا ویسی شکل دی جاتی رہی ۔19ویں ترمیم کیوں اور کیسے کی گئی ، یہ پرانی بات نہیں ہے ۔پھر 20ویں اور 21ویں ترمیم بھی ہمارے سامنے ہیں ۔18ویں اور 21ویں ترمیم کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے ہیں جو سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں ۔ہم سوالات پر بات نہیں کر رہے ۔ ہم اراکین پارلیمنٹ سے صرف یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ ہر کام شدید دباﺅ اور عجلت میں کیوں کیا جاتا ہے ؟اس طرح آئین کے تقدس پر انگلیاں اٹھتی ہیں ۔میں نہ مانوں کی راہ ہموار ہوتی ہے ۔یہ رویہ نقصان دہ ہے ۔سنجیدہ معاملات میں احمقانہ پن نہیں ہونا چاہئے۔

قومی اتفاق رائے اور سندھ کی صورتحال 

وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے درمیان ملاقات میں آپریشن ضرب عضب میں پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں تیزی لانے پر اتفاق کیا گیا بظاہر ایسا لگتا ہے کہ قومی ایکشن پلان پر اطمینان بخش طور پر عمل جاری ہے لیکن حقیقی صورتحال اس سے مختلف نظر آ رہی ہے سندھ میں ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف شریف کے علاوہ سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے بھی شرکت کی تھی ایپکس کمیٹی میں سندھ حکومت کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا اور سخت تنقید کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ پولیس میں تعیناتیاں ایپکس کمیٹی کی منظوری سے ہوں گی بعد ازاں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنماءسید خورشید شاہ نے ایپکس کمیٹی کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایپکس کمیٹیوں کا کام ملک چلانا نہیں ہے انہوں نے انتباہ کیا کہ اس کے خطرناک نتائج نکلیں گے انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم دوستوں کو دشمن نہ بنائیں ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے بعد سندھ کے اخبارات نے شدید رد عمل ظاہر کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ فیصلہ عملی طور پر سندھ حکومت کو مفلوج کرنے کے مترادف ہے یہ خبریں بھی شائع ہوئیں کہ سندھ میں گورنر راج لگنے والا ہے صورتحال اس بات کی غماز ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر اتفاق رائے صرف کاغذی سطح پر موجود ہے حقیقت یہ ہے کہ سیاسی قائدین نے آج تک مصلحتوں اور جوڑ توڑ سے زیادہ کچھ نہیں کیا اور آج بھی وزیراعظم اور ان کی حکومت جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے عمل کے دوران بھی اپنے اتحادیوں کو رعایت نہ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے سندھ میں محکمہ پولیس اور دیگر محکموں میں تقرری و تعیناتی کا پورا عمل ایک عرصہ سے غیر شفاف رہا ہے اور کراچی میں قیام امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ محکمہ پولیس میں سیاسی بنیادوں پر ہونے والی بھرتیاں ہیں جس کی نشاندہی خود سپریم کورٹ بھی کر چکی ہے یہ درست ہے کہ پولیس یا کسی بھی محکمہ میں تقرری اور تعیناتی کا اختیار صوبائی حکومت کو حاصل ہے اور 18ویں ترمیم کے بعد یہ صورتحال مزید واضح ہوئی ہے لیکن ایپکس کمیٹی میں صوبائی حکومت کی بھرپور موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں ہونے والے فیصلے سندھ کے نمائندوں کی مرضی اور رائے سے ہوئے ہیں مسئلہ صرف اتنا ہے کہ سندھ حکومت کسی اعلیٰ سطحی اجلاس میں اپنی بے قاعدگیوں کا دفاع کرنے سے قاصر ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے تمام حصوں میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کو ہر قیمت پر بلاامتیاز رکھا جائے کراچی مین امن کو نقصان پہنچانے والے عناصر کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو ان کے خلاف کسی مصلحت کے بغیر کارروائی کی جائے اور نہ صرف سندھ بلکہ تمام صوبوں میں پولیس کے محکمے میں سیاسی مداخلت ختم کی جائے پولیس جب تک غیر جانبدار نہیں ہوگی امن و امان کے قیام کا مقصد حاصل نہیں کیا جا سکے گا ۔