Saturday 14 March 2015

قومی اتفاق رائے اور سندھ کی صورتحال 

وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے درمیان ملاقات میں آپریشن ضرب عضب میں پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں تیزی لانے پر اتفاق کیا گیا بظاہر ایسا لگتا ہے کہ قومی ایکشن پلان پر اطمینان بخش طور پر عمل جاری ہے لیکن حقیقی صورتحال اس سے مختلف نظر آ رہی ہے سندھ میں ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف شریف کے علاوہ سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے بھی شرکت کی تھی ایپکس کمیٹی میں سندھ حکومت کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا اور سخت تنقید کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ پولیس میں تعیناتیاں ایپکس کمیٹی کی منظوری سے ہوں گی بعد ازاں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنماءسید خورشید شاہ نے ایپکس کمیٹی کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایپکس کمیٹیوں کا کام ملک چلانا نہیں ہے انہوں نے انتباہ کیا کہ اس کے خطرناک نتائج نکلیں گے انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم دوستوں کو دشمن نہ بنائیں ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے بعد سندھ کے اخبارات نے شدید رد عمل ظاہر کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ فیصلہ عملی طور پر سندھ حکومت کو مفلوج کرنے کے مترادف ہے یہ خبریں بھی شائع ہوئیں کہ سندھ میں گورنر راج لگنے والا ہے صورتحال اس بات کی غماز ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر اتفاق رائے صرف کاغذی سطح پر موجود ہے حقیقت یہ ہے کہ سیاسی قائدین نے آج تک مصلحتوں اور جوڑ توڑ سے زیادہ کچھ نہیں کیا اور آج بھی وزیراعظم اور ان کی حکومت جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے عمل کے دوران بھی اپنے اتحادیوں کو رعایت نہ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے سندھ میں محکمہ پولیس اور دیگر محکموں میں تقرری و تعیناتی کا پورا عمل ایک عرصہ سے غیر شفاف رہا ہے اور کراچی میں قیام امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ محکمہ پولیس میں سیاسی بنیادوں پر ہونے والی بھرتیاں ہیں جس کی نشاندہی خود سپریم کورٹ بھی کر چکی ہے یہ درست ہے کہ پولیس یا کسی بھی محکمہ میں تقرری اور تعیناتی کا اختیار صوبائی حکومت کو حاصل ہے اور 18ویں ترمیم کے بعد یہ صورتحال مزید واضح ہوئی ہے لیکن ایپکس کمیٹی میں صوبائی حکومت کی بھرپور موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں ہونے والے فیصلے سندھ کے نمائندوں کی مرضی اور رائے سے ہوئے ہیں مسئلہ صرف اتنا ہے کہ سندھ حکومت کسی اعلیٰ سطحی اجلاس میں اپنی بے قاعدگیوں کا دفاع کرنے سے قاصر ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے تمام حصوں میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کو ہر قیمت پر بلاامتیاز رکھا جائے کراچی مین امن کو نقصان پہنچانے والے عناصر کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو ان کے خلاف کسی مصلحت کے بغیر کارروائی کی جائے اور نہ صرف سندھ بلکہ تمام صوبوں میں پولیس کے محکمے میں سیاسی مداخلت ختم کی جائے پولیس جب تک غیر جانبدار نہیں ہوگی امن و امان کے قیام کا مقصد حاصل نہیں کیا جا سکے گا ۔ 

No comments:

Post a Comment