Monday, 4 August 2014

حکومت شائد آنے والے دنوں کو آسان لے رہی ہے 

حکومت نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے خطاب اور یوم شہداءکے اعلان کے چند سیکنڈ کے اندر جس رد عمل کا اظہار کیا ہے اسے دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ حکومت آنے والے دنوں کو آسان سمجھ رہی ہے اور اسے یقین ہے کہ یہ احتجاج اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔عین ممکن ہے کہ اس کومشیروں کی جانب سے ڈٹے رہنے کا مشورہ دیا گیا ہو ، یہ الفاظ پرویز رشید اپنی ذاتی حیثیت میں استعمال نہیں کر سکتے تھے ۔انہوں نے جو کچھ کہا ہے وہ حکومت کی سوچ کی ترجمانی کے سوا کچھ نہیں ۔تاہم عام آدمی کوبیان سے مایوسی ہوئی ۔عام آدمی کا خیال تھا کہ تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچنے سے پہلے وزیر اعظم محمد نواز شریف نے مکمل ہوم ورک کیا ہوگا ۔دو مرتبہ حکومت کی قبل از وقت برطرفی سے کچھ نہ کچھ سبق ضرور سیکھا ہو گا ۔لیکن سیاسی معاملات میں مسلسل ٹال مٹول سے کام لیا گیا اور تاخیری حربے اختیار کئے گئے انہیں دیکھنے کے بعد عام آدمی یہی نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ حکومت کی سوئی 1998پر اٹکی ہوئی ہے ۔
انتخابات کے فوری بعد ملک کی تمام پارٹیوں نے انتخابات کے حوالے سے عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا ۔دھاندلی کی شکایات ہر پارٹی نے کیں ۔اس میں خود مسلم لیگ ن بھی شامل تھی ۔پاکستان تحریک انصاف نے کراچی میں جن حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کرائی وہاں حیران کن انکشافات ہوئے ۔ایک وسیم نامی شخص کے بارے میں کہا گیا کہ اس نے 70ووٹ ڈالے ہیں ۔ سینکڑوں ووٹرز ایسے نکلے جو اس حلقے میں نہیں رہتے تھے ۔دھاندلی کے اتنے بڑے شواہد سامنے آنے کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے ذمہ داران کے خلاف سرے سے کوئی کارروائی نہیں کی ۔کسی عہدیدار کو رسمی شوکاز نوٹس تک جاری نہیں کیا گیا ۔اس خاموشی کے صرف ایک ہی معنی ہو سکتا ہے کہ حکومت دھاندلی کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے ۔اسی لئے دھاندلی کے شواہد سامنے آجانے کے بعد کسی کے خلاف قانون حرکت میں نہیں آیا ۔اھر پی ٹی آئی نے لاہور کے چار انتخابی حلقوں میںووٹوں کی دوبارہ گنتی پر اصرار کیا تو حکومت نے ایوان کے معزز فلور پر نہ صرف مذکورہ چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کی یقین دہانی کرائی بلکہ یہ بھی کہا کہ 40حلقوں میں تحقیقات کے لئے تیار ہے ۔لیکن یہ یہ محض لفاظی تھی ،حکمت اس اقداسم کے لئےذہنی طور پر کبھی تیار نہیں تھی ۔اسکا نتیجہ یہی نکل سکتا تھا کہ حکومت وقت گذرنے کے عاتھ دفاعی پوزیشن پر چلی جائے ۔اس دوران لاہور میں 14افراد کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت اور 100کے لگ بھگ زخمی ہونے سے سیاسی ماحول میں زبردست کشیدگی پیدا ہو گئی ۔
اب دونوں معاملات یکجا ہو کر حکومت کے لئے ایک بڑا چیلنج بن چکے ہیں ۔حکومت کی جانب سے تا حال ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا جسے بنیاد بنا کر عام آدمی یہ سوچے کہ حکومت بیچ کا کوئی راستہ نکالنے میں کامیاب ہو جائے گی ۔وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کے تازہ بیان کے بعد یہی نظر آ رہا ہے کہ حکومت نے سیاسی مسائل کو انتظامی طریقے سے حل کرنے کا تہیہ کیا ہوا ہے ۔ حالانکہ اسلام آباد میں پولیس کی پسپائی کے بعد حکومت عوامی ناراضگی دور کرنے کے لئے بہتر حکمت عملی اختیار کر سکتی تھی ۔اب بھی حکومت کے پاس ایک ہفتہ ہے ،سوچ سمجھ کر مناسب اقدامات کئے جائیں جن میں چارحلقوں کی دوبارہ گنتی اور واقعہ لاہور کی ایف آئی آر میں عملی پیش رفت شامل ہے ۔ سیاسی معاملات کا سیاسی حل تلاش کرنا چاہیے ، دوسرے راستے بند گلی کی جانب جاتے ہیں ۔

No comments:

Post a Comment