آرڈیننس لانے میں تاخیرہوئی یا عجلت؟
ہمارے سیاست داں اقتدار میں آنے سے پہلے کچھ ہوتے ہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد اس کے برعکس ہو جاتے ہیں ۔جو کام اقتدار میں آنے سے پہلے انہیں غیر جمہوری دکھائی دیتا ہے ، وہی کام اقتدار ملتے ہی جائز اور جمہوری نظر آنے لگتا ہے ۔سینیٹ کے انتخابات سے پہلے ہارس ٹریڈنگ کے حوالے سے جو کچھ کہا اور سنا جا رہا تھا اس سے خوف زدہ ہو کر حکومت اپوزیشن کے ساتھ مل کر 22ویں ترمیم لانے پر آمادہ ہو گئی تھی ۔وہ تو عین آخری لمحات میں پاکستان پیپلز پارٹی اور جمیعت علمائے اسلام نے ووٹ نہ دینے کا اعلان کرکے اس راستے میں ایک رکاوٹ کھڑی کر دی ۔ورنہ اس ترمیم کے دوررس نتائج ہوتے ۔انتخابی طریقہ کار میں بہتری آتی یا نئی اور ان دیکھی خرابیوں کی راہ ہموار ہوتی اس کا فیصلہ مستقبل میں سامنے آتا لیکن فوری طور پر ایک نئی الجھن پیدا ہو جاتی جسے تا حال موضوع بحث نہیں بنایا گیا ۔وہ یہ کہ پاکستان تحریک انصاف اس ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالتی ۔اس کے ساتھ ہی پینڈورا بکس کھل جاتا کہ وہ ووٹ دینے کا استحقاق کھو چکی تھی ، یا ابھی تک ان کے استعفے خلاءمیں معلق تھے ؟
تاہم الیکشن سے چند ثانئے پہلے جس ڈرامائی انداز میں صدارتی آرڈیننس لایا گیا وہ بھی اپنی جگہ کم حیران کن نہیں ۔اس آرڈیننس کا نفاذ صرف فاٹا تک محدود ہے ۔دیگر صوبوں میں جو بلا مقابلہ امیدوار قرار پائے کیا وہ رائے دہندگان کے باہمی لین دین کا نتیجہ نہیں تھے؟ لین دین صرف نوٹ ہی نہیں ہوتے ۔مفادات کے حوالے سے کی جانے والی پیشگی یقین دہانیاں کیا لین دین کی ایک شکل نہیں ہے ؟اگر نہیں ہیں تو فاٹا کے اراکین بھی اسی قسم کا ایک لین دین کرتے اور اپنے نمائندے منتخب کر لیتے ۔یہ سیاسی معاملہ ہے ۔اس کے سیاسی پہلو پر بات کی جا سکتی ہے ۔اور ہونی چاہیئے تھی ۔تاہم اس مسئلے کو عدالت لے جایا گیا ہے ۔عدالت میں تصفیہ طلب مسئلے پر رائے زنی مناسب نہیں ۔عدالتی فیصلہ آنے کے بعد ہی اس پر کچھ کہنا مناسب ہوگا ۔توقع کی جانی چاہیئے کہ اس مسئلے کے تما م پہلوﺅں پر سیر حاصل بحث کی جائے گی ۔ یہ کھوج لگایا جائے گا کہ الیکشن سے محض چند ثانئے قبل ایسی کون سی قیامت آنے والی تھی؟ جسے روکنے کے لئے آرڈیننس کے سوا دوسرا کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔
آئین کی دو شقیں بھی انتخابی عمل سے متعلق ہیں ۔ان شقوں کو 62,63کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ان کے بارے میں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے اگلے روز تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے ۔ اس فیصلے میں ان شقوں کو مبہم، نامکمل اور آپس میں تضادات پر مبنی معمہ قرار دیا ہے ۔اچھے چال چلن اور مناسب دینی معلومات جیسی اصطلاحات سے کچھ نہیں سمجھا جا سکتا کہ ریٹننگ افسر انتہائی مختصر وقت میں کیسے اندازہ لگائے کہ کون سا امیدوار ان شقوں پر پورا اترتا ہے اور کونسا نہیں اترتا ۔دعائے قنوت ہی کو بعض نے دینی معیار بنا لیا تھا ۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے آئین میں جس طرح ترامیم کی جاتی رہی ہیں وہ اپنی جگہ خود ایک سوالیہ نشان ہےں ۔آئین کو موم کا مجسمہ سمجھ کر جس نے جیسا چاہا ویسی شکل دی جاتی رہی ۔19ویں ترمیم کیوں اور کیسے کی گئی ، یہ پرانی بات نہیں ہے ۔پھر 20ویں اور 21ویں ترمیم بھی ہمارے سامنے ہیں ۔18ویں اور 21ویں ترمیم کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے ہیں جو سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں ۔ہم سوالات پر بات نہیں کر رہے ۔ ہم اراکین پارلیمنٹ سے صرف یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ ہر کام شدید دباﺅ اور عجلت میں کیوں کیا جاتا ہے ؟اس طرح آئین کے تقدس پر انگلیاں اٹھتی ہیں ۔میں نہ مانوں کی راہ ہموار ہوتی ہے ۔یہ رویہ نقصان دہ ہے ۔سنجیدہ معاملات میں احمقانہ پن نہیں ہونا چاہئے۔