پارلیمنٹ سیاسی بحران کا حل تلاش کرے
ملک ایک سیاسی بحران کا شکار ہے ۔17جون کو ماڈل ٹاﺅن میں پولیس آپریشن کے نتیجے میں 14پاکستانی شہریوں کی ہلاکت اور 90 افراد کے زخمی ہونے کے بعد نئے سیاسی حالات نے جنم لیا ۔دوسری جانب ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ بڑھ کر بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔ دونوں معاملات نے ملک ، جمہوریت اور آئین کو آزمائش میں ڈال دیا ہے ۔اس کے ساتھ ہی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہونا شروع ہو گئے ہیں ۔غیر ملکی سربراہان اپنے طے شدہ دورے منسوخ کر رہے ہیں ۔وزیر مملکت اور چیئرمین نجکاری کمیشن محمد زبیر نے کہا ہے کہ اسلام آباد میںدھرنوں اور احتجاج کے نتیجے میںاس بات کا خدشہ ہے کہ سرمایہ کاری کے اہداف پورے نہ ہو سکیں ۔انہوں نے کہا کہ غیرملکی اور ملکی سرمایہ کار بنگلہ دیش کو ترجیح دینے لگے ہیں ۔یہ صورت حال ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے ۔عوام افسوس اور کھ سے اس بحران کو شدید سے شدید تر ہوتا دیکھ رہے ہیں ۔زیادہ افسوسناک پارلیمنٹ کا رویہ ہے جو اس بحران کا حل تلاش کرنے کی بجائے صرف قرار دادیں پاس کرنے میں مصروف ہے ۔اراکین پارلیمنٹ ملک اور قوم کو اس بحران سے نکلنے کا کوئی راستہ فراہم کرنے کی بجائے پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کی قیادت پر الزامات لگانے اورانہیں مطعون کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر رہے ۔سوال یہ ہے کہ پارلیمنٹ اگر ملک کو سیاسی بحران سے نبرد آزما ہونے کاکوئی فارمولا نہیں دے سکتی ،تو اس کی افادیت کے بارے میں سوال پیدا ہونا فطری امر ہوگا ۔ پہلا سوال یہ ہے کہ چار حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کو پارلیمنٹ نے سنجیدگی سے کیوں نہیں دیکھا ؟حکومت نے اگر ٹال مٹول کی پالیسی اختیار کی تو اپوزیشن نے ذمہ داری سے اس معاملے کو پارلیمنٹ میں کیوں نہیں اٹھایا ؟اگر موجودہ قوانین میں تبدیلی کی ضرورت تھی تو یہ تبدیلی بروقت کیوں نہیں کی گئی ؟بات بگڑنے سے پہلے اس کا حل کیوں تلاش نہیںکیا گیا ؟دھرنوں کی نوبت کیوں آنے دی گئی ؟جماعت اسلامی اور پی پی پی نے اپنی حیثیت میں جو کچھ کیا اس کا کریڈٹ پارلیمنٹ کو نہیں دیا جاسکتا ۔ اس بحران کو حل کرنے کے حوالے سے پارلیمنٹ کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے ۔ یہی اس ملک کا سب سے بڑا بحران ہے ۔
عام آدمی جمہوریت اور آئین کے ساتھ کھڑا ہے ،لیکن حکومت اور پارلیمنٹ کا رویہ اس کے برعکس ہے ۔حکمراں جماعت کے کارکن بار باردھرنے میں شریک دونوں جماعتوں کی قیادت کی رہائش گاہوں پر پتھراﺅ کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔شاہ محمود قریشی اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہوں کے حوالے سے یہ شکایت سامنے آئی ہے ۔اس قسم کا رویہ حکومت کو نئی مشکلات سے دوچار کر رہا ہے ۔
دھرنا دینے والے تمام مشکلات کے باوجود ، جن میں موسم کی شدت بھی شامل ہے ، اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ڈٹے ہوئے ہیں ۔ایسا ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ دیکھنے کو ملا ہے ۔عورتیں ،بچے ، لڑکیاں ، اور بوڑھے اس دھرنے میں ایک ہفتہ گزرنے کے بعد بھی پر عزم نظر آتے ہیں ۔اسے حکومت سنجیدگی سے نہیں لے گی تو صورت حال میں تناﺅ پیدا ہوگا ۔پر امن ہجوم مشتعل ہوسکتا ہے ۔مشتعل ہجوم پر انتظامی قوت سے قابوپانا مشکل تر ہو جائے گا ۔حکومت کسی تصادم کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔پارلیمنٹ آگے بڑھے ، سیاسی بصیرت کا ثبوت دے ، اس بحران کا دانشمندانہ حل تلاش کرے ۔آنکھیں بند کر کے انہونی کا انتظار نہ کیا جائے ۔قرار دادوں پر تکیہ نہ کیا جائے ، قانون سازی کی جائے جو وقت کی ضرورت ہے ۔ورنہ کچھ بھی ہو سکتا ہے ،کھیل ختم ہونے کا اندیشہ سب کو لا حق ہے،اس سے بچنے کی تدبیرکی جائے ۔